ڈاکٹر محمد احمد: سائنسی جدت کا عَلمبردار پاکستان اور دنیا میں منتخب آئن کی منتقلی اور پائیدار کیمیا کے فروغ کے لیے کوشاں ڈاکٹر محمد احمد کا تعلق پنجاب کے ضلع اوکاڑہ تحصیل دیپالپور کے ایک دور افتادہ گاؤں “لدھے وال” سے ہے

DR. MUHAMMAD AHMAD

اُنہوں نے انتہائی محدود وسائل سے آغاز کیا اور آج وہ پاکستان کے ممتاز کیمیادانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کا سفر سادہ دیہی پس منظر سے بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کرنے تک، اُن کی غیرمعمولی ذہانت، استقامت، اور معاشرتی و سائنسی ترقی سے غیر متزلزل وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آج وہ ایک بین الاقوامی سطح پر شائع ہونے والے محقق، فلبرائٹ اسکالر، اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں کیمسٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں علمی برتری اور عالمی سطح پر شناخت ڈاکٹر احمد کی تعلیمی کاوشیں ہر سطح پر نمایاں کامیابیوں سے عبارت ہیں۔ اُنہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے بی ایس سی میں اور قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم ایس سی اور ایم فل میں نمایاں پوزیشنز حاصل کیں، جن پر انہیں متعدد “سرٹیفکیٹ آف میرٹ” سے نوازا گیا۔ اُن کی علمی درخشانی کا نقطۂ عروج وہ وقت تھا جب انہیں امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے دنیا کے باصلاحیت طلباء کے لیے دی جانے والی فلبرائٹ پی ایچ ڈی فیلوشپ سے نوازا گیا۔ اس کے تحت انہوں نے یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم، امریکہ سے پی ایچ ڈی مکمل کی، جبکہ ابتدائی ریسرچ اور تربیت مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں حاصل کیپی ایچ ڈی کے دوران اُن کا تحقیقی موضوع “پولئی الیکٹرولائٹ ملٹی لئیرز کوٹنگ کے ذریعے آئن کی منتخب منتقلی” تھا، جو فزیکل و اینالیٹیکل کیمسٹری کا ایک نہایت جدید اور مخصوص میدان ہے۔ اُن کی تحقیق کو امریکی محکمہ توانائی کے منصوبوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی یہ تحقیق نہ صرف سائنسی سطح پر انقلابی ثابت ہوئی بلکہ صنعتی سطح پر آئن کی علیحدگی کے مؤثر اور قابلِ عمل حل بھی پیش کیے امریکہ کی USCIS کی جانب سے قومی مفاد میں خدمات کا اعتراف ڈاکٹر احمد کی تحقیق کی اہمیت کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر بھی کیا گیا ہے۔ اُن کی EB2-NIW (نیشنل انٹرسٹ ویور) درخواست کو یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز (USCIS) نے منظوری دی۔ یہ اس بات کا اقرار تھا کہ اُن کی تحقیق امریکہ کے قومی مفاد کی حامل ہے۔ اس بنیاد پر انہیں مستقل رہائش (گرین کارڈ) بھی عطا کی گئی—ایسا اعزاز جو صرف چند ہی سائنسدانوں کو بغیر کسی ادارہ جاتی اسپانسر کے حاصل ہوتا ہے درحقیقت، اُن کی علمی قابلیت اور تحقیقی کارکردگی USCIS کی EB2-NIW کی بلند ترین توقعات سے بھی زیادہ ہے، اور اُن کا پروفائل EB1-A کیٹیگری کے معیار پر پورا اترتا ہے، جو صرف غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کے لیے مخصوص ہے تحقیقی کارنامے اور عالمی اثرات ڈاکٹر محمد احمد نے 60 سے زائد تحقیقی مقالات بین الاقوامی شہرت یافتہ جرائد جیسے ACS Applied Materials & Interfaces, Desalination, Carbon, اور Journal of Membrane Science میں شائع کیے ہیں۔ ان کے کئی مضامین کو عالمی محققین نے کثرت سے حوالہ دیا ہے، اور وہ متعدد معروف سائنسی جرائد کے ریویوور کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی تحقیق کے اہم موضوعات میں شامل ہیں آئن ایکسچینج میمبرینز اور الیکٹرو ڈائیالیسس منتخب آئن کی منتقلی اور توانائی مؤثر ڈی سیلینیشنماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ اور نینو مٹیریلز الیکٹروکیمیکل سینسنگ اور زہریلے مادّوں کی شناخت دوا سازی اور کیٹالسٹ مٹیریلز کی تیاری ڈاکٹر احمد نے پاکستان سائنس فاؤنڈیشن (PSF) اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) جیسے اداروں کو سائنسی منصوبے جمع کروائے ہیں، جن میں وہ پرنسپل انویسٹیگیٹر کے طور پر شامل ہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر اُن کی تحقیق کے فوائدڈاکٹر احمد کی ایک انقلابی ایجاد یہ ہے کہ منتخب آئن کی منتقلی کے ذریعے میمبرین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے فارماسیوٹیکل گریڈ سوڈیم کلورائیڈ (NaCl) اور لیتھیم ہائیڈرو آکسائیڈ (LiOH) تیار کی جا سکتی ہے فارماسیوٹیکل گریڈ NaCl وہ نمک ہے جو زندگی بچانے والی ادویات، آئی وی سیلائن، اور ری ہائیڈریشن محلول کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان میں اگرچہ نمک کے قدرتی ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں، مگر یہ قیمتی نمک درآمد کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر احمد کی تحقیق اس قابل ہے کہ چٹانی نمک سے کم لاگت، ماحول دوست اور قابلِ توسیع طریقے سے اعلیٰ خالصیت والا NaCl حاصل کیا جا سکے، جو نہ صرف طبی میدان میں بہتری لائے گا بلکہ مقامی صنعت کے لیے معاشی مواقع بھی پیدا کرے گا اسی طرح، لیتھیم ہائیڈرو آکسائیڈ (LiOH) وہ اہم مرکب ہے جو لیتھیم آئن بیٹریوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، جن کا استعمال الیکٹرک گاڑیوں، لیپ ٹاپس اور قابلِ تجدید توانائی کے ذخیرہ میں ہوتا ہے پاکستان میں لیتھیم کے ممکنہ ذخائر تو موجود ہیں، لیکن انہیں پراسیس کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں۔ ڈاکٹر احمد کی منتخب آئن کی الیکٹرو ڈائیالیسس کی مہارت، پاکستان میں مقامی سطح پر LiOH تیار کرنے کا راستہ ہموار کر سکتی ہے، جس سے درآمدات پر انحصار کم اور ملکی ترقی کا امکان بڑھے گا اس کے علاوہ اُن کی تحقیق صاف پانی کی فراہمی اور ماحول دوست کیٹالسٹ نظام پر بھی محیط ہے،جو پاکستان کے دیہی علاقوں اور دنیا کے دیگر ترقی پذیر خطوں میں صحت عامہ کے لیے نہایت اہم ہے علمی رہنمائی اور سائنسی تربیت ایک معلم کے طور پر ڈاکٹر احمد نے خود کو آئندہ نسل کے سائنسدانوں کی تربیت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ وہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں ایم فل کی سطح پر کئی تحقیقی منصوبوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے امریکہ، ترکی، کروشیا، اور آذربائیجان میں بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے سائنس کے سفیر کا کردار ادا کیا ہے وہ متعدد جدید مضامین جیسے نانوکیمسٹری، الیکٹرو اینالیٹیکل ٹیکنیکس، اور سر فیس کیمسٹری پڑھاتے ہیں، اور انہوں نے یونیورسٹی میں جدید لیبارٹری ڈھانچے اور نصاب کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے خدمت سے جڑی ہوئی سائنسی بصیرتڈاکٹر احمد کا کیریئر اُن کے مشن کی عکاسی کرتا ہے: عالمی معیار کی سائنسی تحقیق کو پاکستان واپس لانا اور کمزور طبقات کو تحقیق و اختراع کے ذریعے بااختیار بنانا اُن کی دیہی پس منظر سے وابستگی نے اُن کے اس عزم کو اور بھی پختہ کیا ہے کہ سائنس صرف اداروں نہیں، بلکہ انسانوں کی خدمت کے لیے ہونی چاہیے سماجی سرگرمیوں، تحقیقی قیادت، اور علمی فضیلت کے ذریعے وہ مقامی ترقیاتی ضروریات اور عالمی سائنسی ایجادات کے درمیان ایک مضبوط پل قائم کر چکے ہیںایک ایسا سائنسدان جسے قومی اور عالمی سطح پر سراہا جانا چاہیےڈاکٹر محمد احمد واقعی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل سائنسدان ہیں۔ اُن کی سائنسی کامیابیاں، بین الاقوامی سطح پر پذیرائی، اور سماجی بہتری کے لیے وقف ہونا اُنہیں نہ صرف پاکستان کا ایک قابلِ فخر محقق بناتے ہیں بلکہ وہ ملک کا ایک قیمتی اثاثہ بھی ہیں۔ اُن کا کام پاکستان کے لیے واضح معاشی، ماحولیاتی اور طبی فوائد لاتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ عالمی سائنسی برادری میں بھی بھرپور کردار ادا کرتا ہے ایسے سائنسدانوں کو سراہا جانا، سپورٹ کیا جانا اور وسائل فراہم کیے جانا لازم ہے— کیونکہ انہی کی بصیرت، دیانتداری اور جدت پسندی سے اقوام ترقی کرتی ہیں اور عالمی چیلنجز کا پائیدار حل ممکن ہوتا ہے۔

TEHSIL PRESS CLUB DEPALPUR

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *